پھول سا کچھ کلام اور سھی
اک غزل اس کے نام اور سھی
اس کئ زلفیں بہت گھنیری ھیں
ایک شب کا قیام اور سھی
کپکاتی ھے رات سینے میں
زہر کا ایک جام اور سھی
کپکاتی ھے رات سینے میں
یہ مزاجِ یار کو کیا ہُوا ؟
اُنہیں مجھ سے پیار ہے آجکل ۔۔
میری جستجو ،
میری گفتگو ،
میرا انتظار ہے آجکل !
میرے خطوط نکالنا ،
کبھی دیکھنا ،
کبھی چُومنا ۔۔۔
یہی مشغلہ ، یہی سلسلہ ۔۔
یہی کاروبار ہے آجکل !
میرے خطوط نکالنا ،
کبھی دیکھنا ،
کبھی چُومنا ۔۔۔
یہی مشغلہ ، یہی سلسلہ ۔۔
یہی کاروبار ہے آجکل !